مسلمان ممالک کی ’مذہبی پولیس‘

  • 18 منٹ پہلے
Image copyrightOther
ایرانی حکومت کی جانب سے لباس کے حوالے سے ضوابط کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ہزاروں خفیہ پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کی خبروں نے ایک بار پھر ان ریاستی اداروں پر روشنی ڈالی ہے جو کئی مسلمان اکثریتی ممالک میں روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔
مندرجہ ذیل چند ممالک کی فہرست ہے جہاں ’مذہبی پولیس‘ اسلامی اقدار کے نفاذ کے لیے گشت کرتی ہے۔

ایران

Image copyrightOther

نام: گشتِ ارشاد

ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد مذہبی پولیس کی کئی قسمیں سامنے آئیں لیکن گشتِ ارشاد موجودہ مرکزی ایجنسی ہے جس کو لباس کے حوالے سے ضوابط کے نفاذ کا کام سونپا گیا ہے۔
گشتِ ارشاد کو 2007 میں غیر اسلامی لباس کے خلاف قائم کیا گیا تھا۔ ان کے دائرہ کار میں ہے کہ وہ لباس صحیح نہ پہننے پر کسی کی سرزنش کر سکیں، جرمانہ کر سکیں یا حراست میں لے سکیں۔ تاہم اس سال سے اس ایجنسی میں اصلاحات کے تحت ان کے اختیارات محدود کر دیے ہیں۔
اس کے بجائے سات ہزار گشتِ ارشاد کے خفیہ اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں جو ان خلاف ورزیوں کی رپورٹ پولیس کو کریں گے۔ اور پولیس فیصلہ کرے گی کہ آیا اس حوالے سے کوئی ایکشن لیا جائے یا نہیں۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے گشتِ ارشاد پر تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن ملک کے آئین میں ان کو سکیورٹی فورسز کے کاموں میں دخل کا حق حاصل نہیں ہے۔

سعودی عرب

Image copyrightOther
نام: کمیٹی برائے الامر بالمعروف و النہی عن المنكر یا مطوع
مطوع کا قیام 1940 میں ہوا اور ان کو عوامی جگہوں پر اسلامی قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری سونپی گئیگ
ان ذمہ داریوں میں مردوں اور عورتوں کا ملنا جلنا، لباس بشمول حجاب کی درستگی شامل ہے۔
مطوع کو عام طور پر نوجوان اور لبرل لوگ ناپسند کرتے ہیں۔ تاہم اعتدال پسندوں میں بھی حالیہ کچھ واقعات کے باعث ناپسند کیا جانے لگا ہے۔ جیسے کہ ایک اداکار پر فرد جرم عائد کیا گیا کیونکہ اس نے مداحوں کے ساتھ سیلفی لینے کی اجازت دی۔ ایک اور واقعے میں اس پتلے کو قبضے میں لے لیا گیا جس پر غیر اسلامی لباس لٹکایا گیا تھا۔
حکام نے اب اس مذہبی پولیس کے اختیارات میں کمی کی ہے اور وہ اب لوگوں کو حراست میں نہیں لے سکتے بلکہ صرف پولیس کو نشاندہی کر سکتے ہیں۔

سوڈان

Image copyrightOther
Image caption2008 میں خاتون صحافی لبنیٰ الحسین کو ڈطیلے کپڑے پہننے پر گرفتار کیا اور سزا سنائی

نام: پبلک آرڈر پولیس

پبلک آرڈر پولیس کو 1993 میں صدر عمر البشیر نے قائم کیا۔ اس کا مقصد اس وقت کے شمالی سوڈان میں شریعت کا نفاذ تھا۔
اس پولیس کے اختیار میں ہے کہ وہ لوگوں کو گرفتار کرے۔ ان گرفتار افراد کا مقدمہ پبلک آرڈر کورٹس میں چلتا ہے جہاں جیل یا کوڑوں کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اس پولیس فورس نے ایسی تقریبات بند کروائیں جہاں مرد اور عورتیں اکٹھے شامل تھے، غیر شریفانہ لباس پہننے پر عورتوں کی سرزنش کی اور ایسے کاروبار بند کیے جو شریعت کے مطابق نہیں تھے۔
اس پولیس پر عالمی سطح پر اس وقت تنقید کی گئی جب اس نے 2008 میں خاتون صحافی لبنیٰ الحسین کو ڈھیلے کپڑے پہننے پر گرفتار کیا اور سزا سنائی۔

ملائیشیا

نام: کئی نام ہیں لیکن عام طور پر ’مذہبی آفیسر‘ کہا جاتا ہے۔
یہ فورس ملائیشیا کی وفاقی حکومت کے تحت کام کرتی ہے اور اس کا کام شریعت کا نفاذ ہے۔
اس فورس کے اختیارات میں حراست میں لینا ہے۔ جن جرائم کے لیے یہ فورس حراست میں لے سکتی ہے ان میں رمضان میں کھانا کھانا اور مرد اور عورت کا بہت قریب بیٹھنا شامل ہے۔
حراست میں لیے جانے والے افراد کا مقدمہ شرعی عدالت میں چلایا جاتا ہے جو عام عدالتوں سے مختلف ہی